الخميس، شوال ٠٨، ١٤٢٦

باب: ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الااللہ کہنا ہے۔3

سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب صبن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ (ص) کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہ (ص) ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ (ص) برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے او رادھر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابو طالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“ (التوبۃ: 113) اور اللہ تعالی ٰنے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ (ص) سے فرمایا کہ ”آپ (ص) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے“ (القصص:56)۔