الأربعاء، شوال ١٤، ١٤٢٦

باب: جس نے کافر کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا۔2

: سیدنا اسامہ بن زید ص کہتے ہیں رسول اللہ (ص) نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ ہم صبح کو حرقات سے لڑے جو جہنیہ میں سے ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا لالہ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا (کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) میں نے رسول اللہ (ص) سے بیان کیا تو آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟ (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا؟) پھر آپ (ص) بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعدایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے کفر کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ص نے کہا کہ اللہ کی قسم میں کسی مسلمان کو نہ ماروں گا جب تک اس کو ذوالبطین یعنی اسامہ نہ مارے۔ ایک شخص بولا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے: ”اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (شرک، بت پرستی) نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے“؟ تو سیدنا سعد ص نے کہا کہ ہم تو (کافروں سے) اس لئے لڑے کہ فساد نہ ہو اور تو اور تیرے ساتھی اس لئے لڑتے ہیں کہ فساد ہو۔

باب: جس نے کافر کو لاالٰہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا۔

سیدنا مقداد بن اسود ص سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یارسو ل اللہ (ص)! اگر میں ایک کافر سے بھڑوں وہ مجھ سے لڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت کی آڑ لے لے اور کہنے لگے کہ میں تابع ہو گیا اللہ کا تو کیا میں اس کو قتل کر دوں جب وہ یہ بات کہہ چکے؟ تو آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کو مت قتل کر۔ میں نے کہا یارسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر ایسا کہنے لگا تو کیا میں اس کو قتل کروں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کو قتل مت کر۔ (اگرچہ تجھ کو اس سے صدمہ پہنچا اور زخم لگا) اگر تو اس کو قتل کرے گا تو اس کا حال تیرا سا ہو گا قتل سے پہلے اور تیرا حال اس کا سا ہو گا جب تک اس نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔

باب: مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہانتک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکر لیں۔2

: سیدنا عبداللہ بن عمر ص کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بیشک محمد (ص) اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں پھر جب یہ کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا مگر حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔

الجمعة، شوال ٠٩، ١٤٢٦

باب: مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہانتک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرارکر لیں۔

: سیدنا ابو ہریرہ ص کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ص) نے وفات پائی اور سیدنا ابو بکر صدیق ص خلیفہ ہوئے اور عرب کے لوگ جو کافر ہونے تھے وہ کافر ہو گئے تو سیدنا عمر ص نے سیدنا ابوبکر صدیق ص سے کہاکہ تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے حالانکہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ ”مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں۔ پھر جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو بچا لیا مگر کسی حق کے بدلے (یعنی کسی قصور کے بدلے جیسے زنا کرے یا خون کرے تو پکڑا جائے گا) پھر اس کا حساب اللہ پر ہے“۔(اگر اس کے دل میں کفر ہوا اور ظاہر میں ڈر کے مارے مسلمان ہو گیا ہو تو قیامت میں اللہ اس سے حساب لے گا۔ دنیا ظاہر پر ہے، دنیا میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا)۔ سیدنا ابو بکر صدیق ص نے کہا اللہ کی قسم میں تو لڑوں گا اس شخص سے جو فرق کرے نماز اور زکوۃ میں اس لئے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر وہ ایک عقال روکیں گے جو دیا کرتے تھے رسول اللہ (ص) کو تو میں لڑوں گا ان سے اس کے نہ دینے پر۔ سیدنا عمر ص نے کہا اللہ کی قسم پھر وہ کچھ نہ تھا مگر میں نے یقین کیا کہ اللہ جل جلالہ نے سیدنا ابو بکر ص کا سینہ کھول دیا ہے لڑائی کیلئے۔ (یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی) تب میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔

الخميس، شوال ٠٨، ١٤٢٦

باب: ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الااللہ کہنا ہے۔3

سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب صبن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ (ص) کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہ (ص) ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔ ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ (ص) برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے او رادھر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابو طالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“ (التوبۃ: 113) اور اللہ تعالی ٰنے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ (ص) سے فرمایا کہ ”آپ (ص) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے“ (القصص:56)۔

الأحد، شوال ٠٤، ١٤٢٦

باب: ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الااللہ کہنا ہے۔2

سیدنا ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) ایک دن لوگوں میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا یارسول اللہ (ص)! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور یقین کرے قیامت میں زندہ ہونے پر۔ پھر وہ شخص بولا کہ یارسول اللہ (ص)! اسلام کیا ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کو پوجے اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور قائم کرے تو فرض نماز کو اور دے تو زکوٰۃ کو جس قدر فرض ہے اور روزے رکھے رمضان کے۔ پھر وہ شخص بولا کہ یارسول اللہ (ص)! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ کی جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا (یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے )تو اتنا تو ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا یارسول اللہ (ص)! قیامت کب ہو گی؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہ (ص) نے یہ آیت پڑھی کہ ”اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے (یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے، عمر کتنی ہے وغیرہ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے“۔ (لقمان: 34) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اس کو پھر واپس لے آؤ۔ لوگ اس کو لینے چلے لیکن وہاں کچھ نہ پایا (یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا) تب آپ (ص) نے فرمایا کہ وہ جبرئیل 6 تھے، تم کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔

الأربعاء، رمضان ٣٠، ١٤٢٦

باب: ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الااللہ کہنا ہے۔1

ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس ص کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ میں مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس ص کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے بارہ میں پوچھا۔ سیدنا ابن عباس ص نے کہا کہ عبدالقیس کے وفد رسول اللہ (ص) کے پاس آئے تو آپ (ص) نے پوچھا کہ یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں آپ (ص) نے فرمایا کہ مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمند ہوئے (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کیلئے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے، لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا یارسول اللہ (ص)! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ (ص) کے درمیان میں کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم نہیں آ سکتے آپ (ص) تک، مگر حرمت والے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لئے ہم کو حکم کیجئے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلائیں اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپ (ص) نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ ان کو حکم کیا اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لانے کا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے، آپ (ص) نے فرمایا کہ ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد (ص) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصہ کا ادا کرنا (یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے) اور منع فرمایا ان کو کدو کے برتن، سبز گھڑے اور روغنی برتن سے۔ (شعبہ نے) کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یعنی لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں)۔ اور فرمایا کہ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے مَنْ وَّرَآئَکُمْ کہا بدلے مِنْ وَرَآئِکُمْ کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اور سیدنا ابن معاذ ص نے اپنی روایت میں (ص) پنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ (ص) نے عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف تھا) فرمایا کہ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔